مرتب کردہ: محمد باسل (العلوم حیوانات و جینیات)
پاکستان میں ویٹرنری ادویات کی درآمد ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے، جو ملکی معیشت پر اضافی دباؤ ڈال رہی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ویٹرنری ماہرین مقامی سطح پر ادویات کی پیداوار کو فروغ دے کر اس بوجھ کو کم کرنے میں کردار ادا کریں گے، مگر اب تک اس میں خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوسکی۔
ویٹرنری ادویات کی درآمد ایک نظر میں
ملک میں ویٹرنری ادویات کی درآمدات کے اعداد و شمار معیشت پر اس کے اثرات کو واضح کرتے ہیں
مارچ 2023 سے فروری 2024 کے دوران، پاکستان نے 106 غیر ملکی برآمد کنندگان سے 557 کھیپیں درآمد کیں، جس میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 8 فیصد اضافہ ہوا ہے۔(Volza)
مالی اعتبار سے، یہ درآمدات ملکی معیشت پر ایک بڑا بوجھ ہیں
سال 2023 میں، پاکستان نے ویکسین، خون، اینٹی سیرم، ٹاکسن اور دیگر متعلقہ اشیاء کی مد میں 368 ملین ڈالر کی درآمدات کیں۔ یہ اشیاء زیادہ تر بیلجیئم (132 ملین ڈالر)، بھارت (52.1 ملین ڈالر)، امریکہ (35.5 ملین ڈالر)، فرانس (29.1 ملین ڈالر) اور انڈونیشیا (23.7 ملین ڈالر) سے درآمد کی گئیں۔(OEC)
پاکستان میں پولٹری سیکٹر بھی غیر ملکی مصنوعات پر انحصار کر رہا ہے:
پولٹری سیکٹر میں، پاکستان سالانہ تقریباً 6 ارب روپے کی پولٹری ویکسین درآمد کرتا ہے۔
ویٹرنری ماہرین کی ناکامی
یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ویٹرنری ماہرین اور صنعت نے ملکی سطح پر پیداوار بڑھانے میں ناکامی کا سامنا کیا ہے۔ اس شعبے میں ترقی کی توقع تھی مگر کئی وجوہات کی بنا پر وہ ممکن نہ ہو سکی، جن میں شامل ہیں:
- مقامی پیداوار کا فقدان: پاکستان میں ویٹرنری ادویات اور ویکسین کی مقامی سطح پر تیاری محدود ہے، جس کی وجہ سے درآمدات پر انحصار بڑھ گیا ہے۔
- تحقیق و ترقی میں سرمایہ کاری کی کمی: جدید تحقیق اور ویکسین و ادویات کی تیاری کے لیے سرمایہ کاری نہ ہونے کے باعث ملک میں اس صنعت میں ترقی نہیں ہو سکی۔
- معاشی دباؤ میں اضافہ: غیر ملکی مصنوعات پر انحصار ملکی زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ ڈال رہا ہے، جو کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
حل اور مستقبل کی راہ
ویٹرنری ماہرین، پالیسی سازوں اور صنعت سے جڑے افراد کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے فوری اقدامات کریں۔ ان میں شامل ہو سکتے ہیں:
پاکستان میں ویٹرنری ادویات کی درآمدات مسلسل بڑھ رہی ہیں، جو ملکی معیشت پر دباؤ ڈالنے کے ساتھ ساتھ پولٹری اور لائیوسٹاک سیکٹرز کی ترقی کو بھی محدود کر رہی ہیں۔ ویٹرنری ماہرین اور پالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ اس صنعت کی ترقی پر توجہ دیں، تاکہ ملک میں ادویات کی مقامی پیداوار کو فروغ دیا جا سکے اور درآمدی بوجھ کو کم کیا جا سکے۔ بصورتِ دیگر، پاکستان کو ویٹرنری ادویات کے معاملے میں ہمیشہ بیرونی ممالک پر انحصار کرنا پڑے گا، جو طویل مدتی معیشت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
Comments
Post a Comment